جو میرے غم میں گھلا

 وہ جومیرے غم میں گھلا کئے

اسے  میں نے دل سے بھلا دیا  


تاریک  دور کا بدترین عمل  کہ جس پہ خالق کائنات کی بھی انتہا  درجے کی رحمت جوش میں آئ جنت کی نوخیز  کلی  مشرکین کے ہاتھوں مسلی گئیں... وہ  حرماں  نصیب  جو بیٹی *کو رحمت  نہیں ہزیمت و ذلت  کا سبب  سمجھتے 

 اس بچی کے ہاتھ میں گڑیا دے کر، اسے مٹھائی کا ٹکڑا تھما کر، اسے نیلے پیلے سرخ رنگ کے کپڑے دے کر  قبر میں بٹھا دیتے 

بچی اسے کھیل سمجھتی، وہ قبر میں کپڑوں، مٹھائی کے ٹکڑوں اور گڑیاؤں کے ساتھ کھیلنے لگتی پھر یہ لوگ اس کھیلتی مسکراتی اور کھلکھلاتی بچی پر ریت اور مٹی ڈالتے....وہ معصوم اسے بھی کھیل ہی سمجھتی ۔ لیکن جب ریت اس کی گردن تک پہنچ جاتی تو  گھبرا کر  آوازیں دینے لگتی ۔ لیکن ظالم والد مٹی ڈالنے کی رفتار میں اضافہ کر دیتا تھا۔ یہ لوگ اس قبیح عمل کے بعد واپس جاتے تو ان معصوم بچیوں کی سسکیاں گھروں کے دروازے تک ان کا پیچھا کرتی تھیں۔ لیکن ان ظالموں کے دلوں پر تالے تھے ان کے دل نرم نہیں ہوتے تھے۔جن سے اسلام قبول کرنے سے پہلے ماضی میں ایسی غلطی ہوئی تھی۔ ایک نے واقعہ سنایا۔ میں اپنی بیٹی کو قبرستان لے کے جا رہا تھا۔ بچی نے میری انگلی پکڑ رکھی تھی۔ وہ باپ کے لمس کی وجہ سے خوش تھی۔ وہ سارا رستہ اپنی توتلی زبان میں  باتیں کرتی رہی۔ وہ  فرمائیشیں بھی کرتی رہی، اور میں سارا رستہ اسے  بہلاتا رہا۔ قبرستان پہنچا۔

میں نے اس کے لئے قبر کی جگہ منتخب کی۔ میں نیچے زمین پر بیٹھا اور اپنے ہاتھوں سے ریت اٹھانے لگا۔ میری بیٹی نے مجھے کام کرتے دیکھا تو وہ بھی اپنے کام میں لگ گئی۔ وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے مٹی کھودنے لگی۔ ہم دونوں باپ بیٹی ریت کھودتے رہے۔ میں نے اس دن صاف کپڑے پہنے تھے ۔ ریت کھودنے کے دوران میرے کپڑوں پر مٹی لگ گئی۔ میری بیٹی نے کپڑوں پر مٹی دیکھی تو اس نے اپنے ہاتھ جھاڑے، اپنے ہاتھ اپنی قمیض کے ساتھ پونچھے اور میری قمیض سے ریت صاف کرنے لگی۔

قبر تیار ہوئی تو میں نے اسے قبر میں بٹھایا اور اس پر مٹی ڈالنا شروع کر دی۔ وہ بھی اپنے ننھے ہاتھوں سے اپنے اوپر مٹی ڈالنے لگی۔ وہ مٹی ڈالتی جاتی اور قہقہہ لگاتی جاتی تھی اور مجھ سے فرمائیشیں کرتی جاتی تھی۔ لیکن میں دل ہی دل میں اپنے جھوٹے خداؤں سے دعا کر رہا تھا کہ تم میری بیٹی کی قربانی قبول کر لو اور مجھے اگلے سال بیٹا دے دو۔ میں دعا کرتا رہا اور بیٹی ریت میں دفن ہوتی رہی۔

میں نے آخر میں جب اس کے سر پر مٹی ڈالنا شروع کی تو اس نے خوفزدہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اور مجھ سے توتلی زبان میں پوچھا۔ " ابا آپ پر میری جان قربان، آپ مجھے ریت میں کیوں دفن کر رہے ہیں؟

میں نے اپنے دل کو پتھر بنا لیا اور دونوں ہاتھوں سے تیزی سے قبر پر ریت پھینکنے لگا۔ میری بیٹی روتی رہی چیختی رہی، دہائیاں دیتی رہی۔ لیکن میں نے اسے ریت میں زندہ دفن کردیا۔راوی اپنا جرم یاد کرکے  رویا مگر  سامع  رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ضبط جواب دے گیا۔ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی اور آواز حلق مبارک میں گولا بن کر پھنسنے لگی۔ وہ شخص دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا اور رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ہچکیاں لے رہے تھے۔

اس نے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا ۔ " یا رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میرا یہ گناہ بھی معاف ہوجائے گا؟" رحمت العالمین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں سے اشکوں کی نہریں بہہ رہی تھیں..

امت کی بے  قصور معصوم بیٹی کی فریاد آپ اپنے دل پر اترتی محسوس  کررہے ہیں

رحمتوں شفقتوں کا کوہ گراں ہیں  آپ...

.زخمی  دلوں کے مرہم، تنظیم کائنات کا ساماں ہیں آپ

میرے  اور آپکے  نبی  مہربان  نہ آتے تو  شاید ہم بھی.......خاک میں دفن سسک رہی  ہوتیں......ہماری  صدائیں  بے اثر ہوتیں

آج  اپنے گھر  کی ملکہ، باپ  بھائ  کی  شہزادی، اپنے  محرم کی جنت. ..بس  یاد رکھیں 

 ہم  امت کی  بیٹیاں، جنت کی پریاں

آؤ  کریں  اتباع  رسول

ہے  قرض ہم پہ حق رسول

جو نہ ہوسکا  یہ فرض ہم سے ادا

ہر سانس ضائع  ہے زندگی فضول

میں نازاں ہوں کہ انکی امتی ہوں

ہوجائے اداجو فرض بھولی ہوں

انکی دہلیز کی خاک ہی

 بن کر بکھر جاؤں

میراایماں ہے کہ مرکہ بھی امر ہوجاؤں 

 

فداک  میری ہر سانس رحمتہ اللعالیمن

سوز قلم

زرافشاں فرحین

ماہ ربیع الاول خشک و خنک  رات

Comments

Popular posts from this blog

دہر میں اسم محمد صلى الله عليه واله وسلم سے اجالا کردے